Wednesday 21 September 2016

یاد

یاد
یونہی بیٹھا تھا کہ تیری یاد آئ
یاد بھی کیا ہے بس اک لمحہ ہے
خزاں کی شام کا اک پل تھا شاید
بکھرے تھے سوکھے پتے ہر جگہ
چھائی تھی اداسی چار سو
کہ تم کو میں نے دیکھا
کھل اٹھے تھے پھول میرے آس پاس
موسم کی رونق لوٹ آئی تھی
لگنے لگا تھا مجھ کو خزاں میں بھی
کہ شاید بہار لوٹ آئی ہے
میرے قریب آ کر تم نے
جو میری سانسوں کو مہکایا تھا
کہا تھا تم نے مجھ سے
کہ کبھی چھوڑ کہ نہ جاو گے
پھر آج کیوں میرے آس پاس
وہی خزاں کا موسم ہے
وہی اداسی اور وہی سوکھے پتے

No comments:

Post a Comment